شکوے الگ الگ ہیں شکایت الگ الگ
ہم کیا کریں کہ ان کی ہے چاہت الگ الگ
دولت طلب کرے‘ کوئی روٹی کرے طلب
ہوتی ہے آدمی کی ضرورت الگ الگ
لاشوں کے تاجروں کی کمی کچھ نہیں یہاں
کرنے لگے ہیں لوگ تجارت الگ الگ
قاتل کوچھوٹ ملتی ہے معصوم کو سزا
اب ہوچلی ہے طرزِ عدالت الگ الگ
مطلب پرست کوئی تو کوئی خلوص کیش
ہونے لگی ہے آج محبت الگ الگ
غم اور خوشی کے درمیاں رہتے ہویے سعیدؔ
محسوس مجھ کو ہوتی ہے حالت الگ الگ
سعیدرحمانی
No comments:
Post a Comment