ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Tuesday, August 18, 2020

:سکوتِ دشت(شعری مجموعہ) Sokoot e Dasht Shiri Majmooa

تاب کا نام :سکوتِ دشت(شعری مجموعہ)

 شاعر:اقبال انجم
:مبصر:سعید رحمانی

اقبال انجم کو طالب علمی کے دور سے شعر وشاعری کا شوق رہا ہے۔جب وہ گیارھویں جماعت میں تھے تو اپنے استاد ٹھاکر سنگھ چنڈاوت سے انھیں شاعری میں استفادے کا موقع ملا کیونکہ موصوف ہندی کے ایک نامی گرامی شاعر تھے۔ان کے بعد رمیش نگم‘اسماعیل نثار اور مقبول رضا جیسی ادبی شخصیتوں کی صحبت میں ان کی شاعری برگ وبار لانے لگی۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اس دوران وہ صرف ہندی زبان میں طبع آزمائی کرتے رہے تھے۔اردو کی جانب اس وقت مراجعت کی جب راجستھان کے مشہور ومقبول شاعر خلیل تنویر صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ان سے نہ صرف اردو رسم الخط سیکھی بلکہ شاعری کے اسرار ورورموز سے آشنائی بھی حاصل کی۔۱۹۷۵ ؁ء سے اردو شاعری کا سلسلہ جاری ہے 
۔چاردہائیوں سے بھی زائد عرصہ پر محیط اپنے شعری سفر کے دوران جتنی غزلیں کہیں انھیں کا انتخاب ’’سکوتِ دشت‘‘کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ 
مجموعے کی ابتدا حسبِ معمول حمدیہ‘نعتیہ اور دعائیہ کلام سے ہوئی ہے۔اس کے بعد غزلیں اور آخر میں متفرق اشعار شامل ہیں۔غزلوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ روایت کی پاسداری انھیں عزیز ہے ۔اس لئے یہ غزلیں جدید حسیت کے ساتھ ساتھ ادب کی صالح قدروں پر استوار نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ لفظوں کی شعبدہ بازی سے گریز کرتے ہوئے اپنے استعاراتی انداز کو اس طرح برقرار رکھا ہے کہ کہیں ترسیل وابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔


مجموعے کا نام بھی بڑا معنی خیز ہے جس سے آج کے انسان کے احساسات کی برملا عکاسی ہوتی ہے ۔آج کاانسان بھیڑ میں رہتے ہوئے بھی خود کو یکا وتنہا محسوس کرتا ہے اور اسے لگتا ہے کے شہری ہنگاموں اور بے انتہا شور وشغب کے درمیان وہ خاموشی کے حصار میں قید ہے۔اس ضمن میں ان کے یہاں بیشتر اشعار مل جاتے ہیں۔صرف چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
ہر سمت خامشی کا گھنا اک حصار تھا۔حدِ نگاہ سلسلۂ کہسار تھا
اندھیرا گھپ ہے سنّاٹا بہت ہے۔مرے اندر کنواں گہرا بہت ہے
اب کوئی الجھن‘ کوئی آہٹ‘ کوئی دستک نہیں
ایک سنّاٹا ہے جس میں ڈوبتا جاتا ہوں میں
میں بیاباں ہوں مری روح میں سنّاٹا ہے۔یہ گھنی دھند مری ذات کا سرمایہ ہے
جب وہ اپنی ذات کے نہاں خانہ سے باہر نکل کر اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات و سانحات پر پر نظرڈالتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ آج کی دنیا بہت تیز رفتار ہوگئی ہے۔کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ ایک دوسرے کی خبر لے‘اعلیٰ قدروں کے انہدام کے ساتھ ساتھ رشتوں میں بھی دراڑیں پڑنے لگی ہیں‘ نفرت اور تعصب سے ملک کی فضا دھماکہ خیز ہوتی جارہی ہے اور انجام کار انسانیت کے خواب بکھرتے جارہے ہیں ۔ان باتوں کو انھوں نے اس طرح شعری زبان دینے کی کامیاب کوشش کی ہے:۔ 



وقت کی رفتار نے پہچان سب کی چھین لی۔شہر میں اب کوئی صورت جانی پہچانی کہاں
دیکھتے دیکھتے خوابوں کا نگر راکھ ہوا۔گھاس کے ڈھیر میں آکر گرا انگار کوئی
سنہرے خواب رخصت ہورہے ہیں۔دیے بجھنے لگے وقت سحر سے
ظالموں سے آنکھ ملانے کا حوصلہ بھی ہے اور حق گوئی و بیباکی بھی۔چنانچہ کہتے ہیں:۔
ہم تیغ و سپر چھین لیا کرتے ہیں انجمؔ۔ظالم سے کبھی ظلم کا شکوہ نہیں کرتے
سہوگے ظلم تو ظالم کو حوصلہ دے گا۔رہوگے چپ تو زمانہ تمہیں سزا دے گا
ان غزلوں میں ایک استعاراتی فضا بھی ہموار نظر آتی ہے۔اونگھتے پیڑوں کے سائے‘سستاتی ہوئی دوپہر‘دشت و صحرا جیسے تلازمات کے وسیلے سے انھوں نے انسانی جذبات واحساسات کی اس طرح عکاسی کی ہے کہ ان اشعار کی گہرائی وگیرائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔مثلاً یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔
اونگھتے پیڑوں کے سائے میں ابھی۔دور تک سُستا رہی ہے دوپہر
ایک اک کرکے ہراک تصویر دھندلاتی گئی۔جب اداسی کا کنواں کچھ اور گہرا ہوگیا
دشت سے کیسی صدا آئی تھی وقتِ نیم شب
چل دیا وہ چھوڑ کے چپکے سے گھر سوتا ہوا




یہ آخری شعر اپنے اندر اساطیری پہلو رکھتا ہے ۔اشارہ گوتم بدھ کی طرف ہے جو نروان کی تلاش میں اپنے پیچھے سوتا ہوا گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ضروری نہیں کہ اس تفہیم سے سب اتفاق کریں۔استعاراتی شعر کے اعماق میں اتر کر ہر قاری اس کی تفہیم اپنے طور پر کرسکتا ہے۔
ان کی شاعری کے بارے میں رشید افروز فرماتے ہیں:’’اقبال انجم کی غزلوں سے اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ انھوں نے جدیدیت کے کمزور پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے مثبت پہلو اور محاسن کی جانب اپنی توجہ مرکوز کی۔۔۔۔۔اپنے ذاتی تجربات‘مشاہدات‘احساسات اور دلی کیفیات کی ترجمانی کے ذریعہ شعر کو اصلیت سے ہمکنار کرنے کی حتی الامکان کوشش کی‘‘۔ 



مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ زیرِ نظر مجموعے میں شامل غزلیںاقبال انجم کی عصری حسیت‘ شعری بصیرت‘صلابت فکری اور بالیدہ ذہن کی ترجمانی کرتی ہیں اور ان کے جداگانہ اندازِ فکر کی بھی غماز ہیں۔رنگین سرورق‘نفیس کاغذ اور عمدہ طباعت کے ساتھ ساتھ دل کو چھوتی ہوئی شاعری سے مزین یہ مجموعہ امید ہے اہلِ ادب کی توجہ کا مرکز بنے گا۔۱۶۰؍صٖفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۲۵۰؍ روپے ہے اور شاعر کا پتہ ہے::اندرا کالونی ۔وارڈ نمبر۔2نرسری روڈ۔ساگواڑہ۔ 314025ضلع ڈونگر پور(راجستھان)

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts