ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Saturday, September 15, 2018

نام کتاب:رنگِ ہنر (شعری مجموعہ) شاعر:رمیش کنول مبصر ۔سعید رحمانی

   نام کتاب:رنگِ ہنر              (شعری مجموعہ)
           شاعر:رمیش کنول              مبصر ۔سعید رحمانی 
رمیش کنول بچپن ہی سے شاعری کے دلدادہ رہے ہیں۔فلمی گیتوں سے متاثر ہوکر انھوں نے شاعری کا آغاز کیا۔اولین غزل ’’پرواز‘‘لدھیانہ کے اگست ۱۹۷۲ء کے شمارے کی زینت بنی۔پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیںدیکھا اور ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے آج اپنی ایک منفرد شناخت بنا لی ہے۔چار دہائیوں سے بھی زائد اس شعری سفر کے دوران ان کے تین شعری مجموعے شایع ہوکر اہلِ ادب سے خراج حاصل کرچکے ہیں۔
زیر نظر مجموعہ چوتھا ہے جس کی اشاعت اسی سال ۲۰۱۶ء میں ہوئی ہے۔اس میں غزلوں کے علاوہ ماہئے‘غزل نما‘گیت اور قطعات بھی شامل ہیں۔غزل ہی ان کی محبوب صنفِ سخن ہے اور اسی کو وسیلۂ اظہار بناکر انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو شعری جامہ عطا کیا ہے۔ان غزلوں میں موضوع‘مواد‘جذبہ واحساس کی عمدہ ترجمانی کے علاوہ تشبیہہ واستعارہ کی تازہ کاری اور جدت طرازی ان کی شعری بصیرت کی آئینہ دار ہے۔ ان غزلوں کے ضمن میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان میں ایک طرح کی میانہ روی پائی جاتی ہے جس کی بنا پر ان پر کسی بھی رجحان کا لیبل چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔بہ الفاظِ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری کلاسک اور نو کلاسک یعنی قدیم وجدید کے درمیان ایک پُل کی مانند ہے جو تہذیبی رویوں سے گزرتے ہوئے آج کے انہدام پذیر معاشرے سے ہمکلام ہوتی ہے۔اپنے ابتدائی سفر میں انھوں نے سیدھے سادے لفظوں میں غزلیں کہیں ۔پھر بتدریج اشاریت‘ایمائیت‘اور استعارات وعلائم کے برملا استعمال سے اپنی شاعری کو معنوی جمال اور گہرائی وگیرائی عطا کی۔اس نوع کی شاعری پر کچھ کہنے سے پہلے یہاں مثالاً چند اشعار پیش ہیں جن میں حسن وعشق کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے:۔
احساس کے آنگن میں کوئی پھول کھلاہے۔آتا ہے بہت یاد کنولؔ یار کا چہرہ
مہک اس کے گیسو کی آنے لگی۔مرے گھر کی جانب چلا ہے کوئی 
تمہارے جسم کے اشعار مجھ کو بھاتے ہیں۔مری وفا کی غزل تم بھی گنگنایا کرو
اور جب وہ استعاراتی طرزِ اظہار اپناتے ہیں تو بڑے خوبصورت شعر ان کی نوکِ قلم سے ڈھلنے لگتے ہیں اور بعض اشعار ایسے بھی ہیں جن میں غیر ذی روح انسانی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔مثلاً:۔
روز ڈوبے ہوئے سورج کو اگا دیتی ہے۔رات کس کس کو اندھیرے میں صدا دیتی ہے
آگ ہر خواب کے جنگل میں لگا دیتی ہے۔وقت کی دھوپ مجھے کیسی سزا دیتی ہے
پہلے شعر میں رات کا صدا دینا اور دوسرے شعر میں دھوپ کا منصفی کردار ادا کرناسراسر انسانی افعال ہیں اور اس میں شک نہیں کہ یہ اشعار ہمیں ایک نیے ذائقے سے روشناس کراتے ہیں۔ان کا استعاراتی نظام بھی لائقِ تحسین ہے۔تعلق کا دریچہ‘  ملاقات کا آنگن‘فاصلوں کا چراغ‘قربتوں کا دیا جیسی تراکیب کے حسن کارانہ استعمال نے ان اشعار میں تہہ داری پیدا کردی ہے۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں:۔
بند کرنا نہ تعلق کے دریچے کو کبھی۔تم ملاقات کے آنگن کو منور رکھنا
فاصلوں کے چراغ گل کرکے۔قربتوں کے دیے جلاؤں گا
اس قسم کے انگنت اشعار کا حوالہ دیاجا سکتا ہے مگر اس مختصر سے تبصرے میں سب کا احاطہ ممکن نہیں۔اس لئے آخر میں ان اشعار کے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا جن سے ان کی صالح فکری‘تعمیر پسندی اور انسانیت نوازی مترشح ہے:۔
یوں اختلاف بڑھ گیا قوموں کے درمیاں۔ملت کے سائبان سلامت نہیں رہے
دونوں ملکوں میں محبت ہو‘امن چین رہے۔اے کنولؔ ایسا دعاؤں میں اثر ہوجائے
مجموعی طور پر ’’رنگِ ہنر ‘‘اپنے تعمیری جہات اور افادی پہلوؤں کے سبب ایک لائقِ مطالعہ مجموعہ ہے اور امید ہے کہ ادبی حلقہ خوشدلی سے اس کی پذیرائی کرے گا۔رنگین اور دبیز کاغذ پر چھپے اس مجموعے کی قیمت ہے ۵؍سو روپے اور شاعر کا پتہ۔رمیش کنول۔۶؍منگلم وہار کالونی۔آرہ گارڈن روڈ۔جے دیو پتھ۔پٹنہ۔800014 
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts