ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Friday, September 14, 2018

نامِ کتاب: مطالعہ وتفہیم (تنقیدی مضامین) مصنف:عمران عظیم مبصر:سعید رحمانی

         نامِ کتاب: مطالعہ وتفہیم       (تنقیدی مضامین)
         مصنف:عمران عظیم          مبصر:سعید رحمانی


ادب کے عصری منظر نامہ میں عمران عظیم ایک ہمہ جہت قلمکار کی مستحکم 
شناخت رکھتے ہیں۔شعروادب اور نقد وتحقیق پر دسترس حاصل ہے۔وکالت جیسے خشک پیشے سے جڑے رہنے کے باوجود شعر وادب کا رچا بسا ذوق پایا ہے۔دراصل ان کی پرورش وپرداخت ایک ایسے خانوادے میں ہوئی ہے جس کاماحول سراسر ادبی رہا ہے۔آپ کے والد محترم حضرت نیر قریشی ایک کہنہ مشق اور معتبر شاعر کی حیثیت سے مقبول ہیں۔اس طرح شاعری کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق بھی انھیں ورثے میں ملا ہے جس کو وہ اپنے فکر وفن سے مزید جلا بخشنے میں مصروف ہیں۔
زیرِ نظر مجموعہ کے علاوہ ان کی مزید چار تصنیفات غزلوں‘نظموں‘شخصیات اور نقد وتحقیق کے موضوع پر مشتمل منظرِ عام پر آکر اہلِ ادب سے خراج حاصل کرچکی ہیں۔بہر حال اس مجموعے کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے باب میں انتقادیات‘دیہاتی معاشرے میں فلم وادب اور آج کی افسانہ نگاری پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔دوسرے باب میں ۱۳؍شعرائے کرام کی شاعری کا محاکمہ ہے جبکہ تیسرے باب میں اردو شعر وادب کے تعلق سے کچھ ادبی اداروں اور شخصیتوں کی سرگرمیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
یوں تو موضوعات الگ الگ ہیں مگر بین السطور ان کی تنقیدی بصیرت محرک نظر آتی ہے۔ان کے تنقیدی رویّے کے تعلق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اظہارِ خیال غیر جانبدارانہ ہوتا ہے اور بے باکی وحق گوئی ان کا شعار ہے۔ اس بات کی توثیق ان کے اس قول سے کی جاسکتی ہے۔وہ کہتے ہیں:’’ناقد کو حقائق کی شمشیرِ برہنہ کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف نظر آنے لگے۔ناقد کا کام سچ بولنے کا ہوتا ہے اور تنقید کا عمل بصیرت افروزی کا عمل ہوتا ہے۔‘‘ہر جگہ وہ اپنے اس قول پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے راقم الحروف کا بھی یہی خیا ل ہے کہ ایک ناقد کو تنقید کا حق ادا کرنے کے لیے ان اوصاف سے متصف ہونا لازمی ہے ورنہ تنقید قصیدہ خوانی ہوکر رہ جایے گی۔
مجموعے کا اولین مضمون فلم وادب کے تعلق سے دیہاتی معاشرے کے ماضی اور حال پر روشنی ڈالتا ہے۔وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آج کل دیہاتوں میں بھی قدروں کی پائمالی ہونے لگی ہے اور ان میں بسنے والوں کی زندگی پر شہری اثرات تیزی سے مرتب ہونے لگے ہیں۔اسے آج کے ترقی یافتہ عہد کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے۔دوسرا اہم مضمون ’’مبادیاتِ تحقیق ‘‘ہے۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ آج کل یونیورسیٹیوں میں تحقیقی مقالات کا تھوک کاروبار ہونے لگا ہے۔اس ضمن میں بہار کے ایک نامور شاعر‘ادیب‘ناقد ومحقق کاحوالہ دیا ہے جنھوں نے تحقیقی مقالات لکھنے کی فیکٹری کھول رکھی ہے۔کوئی بھی اسکالر ۲۵؍ہزار روپوں کے عوض ان سے تحقیقی مقالہ حاصل کرکے ادب کا ڈاکٹر بن سکتا ہے۔اس باب کا آخری مضمون’’آج کی کہانی‘‘ ہے  جس میں اردو افسانوں کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کی گئی ہے۔
دوسرے باب میں جو تیرہ شعرائے کرام ہیں ان میں مظفر حنفی‘معصوم 
شرقی‘اسد رضا‘عمر قریشی‘ انور‘فرحت احساس‘یونس رہبر وغیرہ جیسے معروف ومعتبر شعرا کی غزلوں اور نظموں کا جائزہ انھوں نے بڑی عرق ریزی سے لیا ہے اور ہر شاعر کے اسلوب اور شعری جہت پر روشنی دالی ہے۔یہ تمام مضامین عمران عظیم صاحب کی تنقیدی بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔
آخری باب میں ہندوستانی اکاڈمی الہ آباد‘انجمن ترقی ہندجیسے ادبی اداروں کی تاریخ وخدمات کا احاطہ کرتے ہویے کچھ ایسی کتابوں پرتبصرے بھی شامل کیے ہیں جن کا موضوع غزل کے علاوہ دیگر اصنافِ سخن مثلاً ہائیکو‘سہرا وغیرہ ہے۔مجموعی طور پر یہ مجموعہ سلاستِ زبان وبیان‘شگفتہ طرزِ تحریر اور منفرد اسلوبِ بیان کی وجہ سے نہ صرف لائقِ مطالعہ ہے بلکہ دعوتِ غور وفکر بھی دیتا ہے۔امید ہے کہ ادب کا سنجیدہ حلقہ خوشدلی سے اس کی پذیرائی کرے گا۔اس کتاب کی قیمت ہے ۸۵؍روپے اور ملنے کا پتہ:عمران عظیم(ایڈوکیٹ)۔چیمبر نمبر۔694۔پٹیالہ ہاؤس کورٹ۔نئی دہلی۔110001  

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts