ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Sunday, September 16, 2018

گلوبل گائوںکا نمائندہ شاعر۔ ڈاکٹر فریاد آزر

سعید رحمانی
کٹک( اڑیسہ)


         گلوبل گائوںکا نمائندہ شاعر۔ ڈاکٹر فریاد آزر




 اس میںشک نہیںکہ نئے عہد نے ہم پر خوش حالی اور عیش و عشرت کے در وا کیے ہیںسائنس اور ٹکنولوجی نے مادی ترقیات کو تیز رفتاری عطا کی ہے ۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک گلوبل گائوں میںتبدیل کر دیا ہے مگر بایں ہمہ ان سائنسی دریافتوں اور فکری جدتوں نے مادی پیش رفت کے پہلو بہ پہلو روحانیت کو بھی مجروح کیا ہے ۔ اطمینان‘ قلبی سکون اور راحت جیسی بے بہا دولت آج قصئہ پارینہ نظر آتی ہے ۔ یہ سب اس لیے کہ اعلیٰ اقدار کی پامالی ‘تہذیب کی شکست وریخت‘ خود غرضی اور منافقت جیسی علتیں ہمارے معاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کررہی ہیں۔ آج کا انسان کبھی ذات کے محفوظ جزیرے میںقید نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی انتشار کے تپتے ہوئے ریگستانوں میںخود کو نامساعدحالات سے متصادم پاتا ہے۔
        اس بحران میںسانس لینے والی نسل زندگی کے چوراہے پر کھڑی آگے کا راستہ متعین کرنے میںمنہمک نظر آتی ہے ۔ اس نسل کے فنکاروں میںجنہوںنے گزشتہ صدی کی آٹھویںدہائی کے آس پاس اپنے تخلیقی وجود کا ثبوت دینا شروع کیا ان میںسے بیشتر کی شاعری اپنے عہد کا ایک ایسا آئینہ نظر آتی ہے جس میں عہدِحاضر کے مختلف چہرے عکس ریز ہیں۔انھیں فنکاروںمیںڈاکٹر فریاد آزرایک اہم نام ہے ۔ وہ خالصتاََ غزل کے شاعر ہیں۔ عصری شعور کی حامل ان کی غزلیںسماجی ‘ معاشی اور نفسیاتی رویوں کے ہر رخ کی ترجمانی کے ساتھ بالخصوص امت مسلمہ کی حالتِ زار کا المناک پہلو پیش کرتی ہیں ۔ ان غزلوں سے ان کا فکری اخلاص مترشح ہے جن میںسماجی شعوراور اسلامی فکر کی ایسی فضا بندی ہوئی ہے جس سے ان کی غزل گوئی کے وسیع تر امکانات روشن نظر آتے ہیں۔
               ان کا حقیقی نام سید فریاد علی ہے اور ادبی دنیا میںڈاکٹر فریاد آزر کے نام سے معروف ہیں۔ بنارس میںان کی ولادت ۱۰جولائی۱۹۵۶ء؁کو ہوئی۔ انٹر میڈئٹ وہیں سے کیا اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آگئے۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے‘ جواہر لا ل نہر ویونیورسٹی سے ایڈوانس ڈپلومہ ان ماس کمیونیکیشن میڈیا‘اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم۔ اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاںحاصل کیں۔ سردست دہلی میںقیام ہے جہاںوہ درس و تدریس کے معززپیشہ سے وابستہ ہیں۔ صحافت کا اچھاتجربہ بھی رکھتے ہیں۔ 

ماہنامہ انٹر نیشنل اردو میڈیاکی ادارت سے تین سال تک وابستہ رہے۔ فی الحال ماہنامہ ’’عاکف کی محفل ‘‘کے مدیر اعزازی ہیںاورادب ڈاٹ کوم کے موڈریٹرکی حیثیت سے اپنا ایک ادبی ویب سائٹ بھی چلا رہے ہیںجس کے ہزاروں ممبر ساری دنیا میں موجود ہیں۔
          انھیں یوںتو بچپن سے شاعری کا شوق رہاہے مگر اس کا باقاعدہ آغاز۱۹۷۸ء؁ میںکیا۔ پہلے ساجن پردیسی مرحوم سے اصلاحیںلیںاورآخرمیںپروفیسرعنوان چشتی مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ اب ماشاء اللہ وہ اس مقام پر ہیںکہ دوسرے ان سے کسب فیض کر رہے ہیں۔ یو ںتو طالب علمی کے دور سے ہی ان کی تخلیقات شاعر، شب خون، آہنگ، سب رنگ، ادب لطیف،افکار( پاکستان )جیسے مقتدر رسائل کی زینت بننے لگی تھیں مگر اب یہ حال ہے کہ بیشتر رسائل میں نظر آتے ہیں اور اپنی ایک منفرد شناخت بھی بنا ئی ہے تصنیفات میں بچوں کا مشاعرہ کے علاوہ دو(غزلیہ )شعری مجمو عے’ خزا ںمیرا موسم‘ اور’ قسطو ں میں گزرتی زندگی‘ منظر عام پر آکر خراج تحسین وصول کر چکے ہیں اور ابھی ابھی ان کا تیسرا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میںمنظرِ عام پر آیا  ہے جو دراصل پہلے دو مجموعوں کا ایک جامع انتخاب ہے ۔ اس انتخابی مجموعہ کوپیش کرنے کا عمل اس نقطئہ نظر سے لائق تحسین ہے کہ ان کی نمائندہ تخلیقات یکجا نظرآئینگی۔ جو لوگ تحقیقی امور سے جڑے ہیںوہ اگر آزرؔصاحب پر کچھ لکھنا چاہیںتو اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔آزر صاحب کی شاعری کے متعلق لب کشائی سے پہلے میں ڈاکٹروزیر آغا صاحب کا یہ قول پیش کرنا چاہوںگا۔’’ شاعروہی اچھا ہے جو اپنی مہر بند شخصیت میںروزن بناکر خود کو لامتناہیت کے لمس سے آشنا کرے‘‘ ۔ ڈاکٹر فریاد آزر کی غزلوں میں واحد متکلم اگر چہ اپنی ہی ذات کے خول میںنظر بندآتا ہے ‘بنظر غائر دیکھا جائے تو وہ اپنی ذات کے اندر محدود نہ رہ کر ہر دور کے معاشرے کا ایک ایسانمائندہ فرد ہے جس کی نظیر مسائل کی دھوپ میںتپتے ہوئے ریگستا نوںمیںکھڑے اس شخص سے دی جا سکتی ہے جو ہمدردی اور خلوص کی چادر سے محروم ہے ۔ دونوں مجموعوںکے بیشتر اشعار سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی وسطی زندگی جہد مسلسل میںگزری ہے اور زندگی کی کڑی دھوپ کے صحرا میں مدتوںآبلہ پائی کے کرب سے دوچار رہے ہیں۔ واللہ علم بالصواب۔ ان کے کچھ اشعار میرے اس گمان کو تقویت پہنچارہے ہیں۔ مثلاََ
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں۔خبر نہ تھی نکالے گا جان قسطوں میں

تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش۔خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
تمام قرض ادا کرکے ساہوکاروںکا۔بچاہی لوںگا بزرگوںکی آن قسطوں میں
جو مکاںاپنے بزرگوںنے بنایا تھا کبھی۔اس مکاںمیںہم کرایہ دار ہوکر رہ گئے
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے۔یہ مکاںرات کو پھر گھر میںبدل جاتا ہے
سب میں کرایہ داروںکے پائے گئے نشاں۔جسموںکے شہر میں کوئی خالی مکاںنہ تھا
              ان اشعار سے ظاہر ہے کہ آزر صاحب کی زندگی میںجو کڑے لمحے آئے ہیںان میںبے گھری کا کرب سب سے نمایاںہے۔ بنارس سے دہلی ہجرت اور پھر دہلی میںمستقل قیام کے دوران ان کی ذاتی زندگی میں اچانک قیامتِ صغرا کی زبر دست  ہنگامہ آرائی بھی ان کی شاعری میںجا بجا محسوس کی جا سکتی ہے۔شخصیت اور شاعری کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ شاعر جو محسوس کرتا ہے یا اس  کے اپنے جو مشاہدات وتجربات ہوتے ہیںانہیںاس طرح شعری لباس عطاکرتا ہے کہ فردیت اجتماعیت کا روپ دھار لیتی ہے ۔ فریاد آزر چونکہ ایک حساس انسان ہیں اس لئے عصرِ حاضر کی قہر سامانیاںان پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کی شاعری انسانیت کو درپیش مسائل سے مکالمہ آرائی کرتی نظر آتی ہے ۔ آج کی صارفیت اور عالم گیریت کی اندھی دوڑ میں جبکہ اخلاقی قدریںاور ترجیحات یکسر بدل چکی ہیں‘ انسانیت کا قتلِ عام جاری ہے ‘ایسے میںآزر صاحب نے اپنی شاعری سے نوک نشترکا کام لینے کی عمدہ کوشش کی ہے ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میںعہدِحاضر کا منظر نامہ قاری کو لمحئہ فکریہ عطا کرتا ہے۔
گھٹ کے مرگیا مرے اندر کا آدمی۔پھر آکے بس گیا کوئی پتھر کا آدمی
اب اس کی روح میںشیطان بس گیا آزر۔وہ جسم گاؤں سے انسان لے کے آیا تھا 
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا۔سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
       آج کی مادہ پرست دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ رشتوںمیںاستواری نہیںرہی۔ اگر دنیا سکڑتی جارہی ہے تو فرد سے فرد کی دوری بھی بڑھنے لگی ہے ۔ اس فکری بعد اور ذہنی فاصلہ نے انسان کو اپنی ذات کے خول میںبند کردیا ہے ۔ تنہا ئی اس کا مقدر بن چکی ہے ۔ چنانچہ شناسالوگ بھی نظر پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ بے حسی ایسی کہ منھ اور کان رہتے ہوئے بھی انسان گونگا اور بہرا لگتا ہے اور تو اور شہر ایک ایسا طلسم خانہ بن چکا ہے جس کی حدود میںقدم رکھتے ہی لوگ پتھر میںتبدیل ہوجاتے ہیں۔کچھ ایسے ہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے یہ شعر ملاحظہ ہوں۔۔۔
وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کوئی نہیں۔جانتے ہیںسب مجھے پہچانتا کوئی نہیں
پہلے تو اس نے شہر کو بہرا سمجھ لیا ۔پھر یوںہوا کہ خود کو ہی گونگا سمجھ لیا
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں۔جو بھی جا تا ہے وہ پتھر میںبدل جاتا ہے
             اب ذرا دنیا کی تیز رفتاری اور خاندان کے بکھراؤ کے ساتھ ساتھ جدید دور کے یہ کرشمے بھی دیکھیںکہ کمپیوٹر نے اب بچوںکی کتابوںکے بستہ کی شکل لے لی ہے۔ اوزون کے سوراخ سے درآنے والی بنفشی شعاعوںکا حملہ بھی ہونے لگا ہے جس سے عمل تنفس کا متاثر ہونا یقینی ہے اور لمحوں میںصدیوںکا فاصلہ طہ کرنا کوئی محیرالعقول بات نہیںرہی۔
ننھا کمپیوٹر ‘ قلم ‘کاپی‘ کتابوں کی جگہ۔اس قدر سوچا نہ تھا ہو جا ئیںگے بستے جدید
ورنہ ہم سانس لینے کو ترس جائیںگے۔سطح اوزون کو فضلات سے آزادی دے
چلے تو فاصلہ طے ہونہ پایا لمحوںکا۔رکے تو پاؤںسے آگے نکل گئیںصدیاں
            اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتاکہ ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے جس میں جدید معاشرے کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں ۔تاہم ان کی شاعری کا ایک خوشگوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے ان کی اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میںاساسی حیثیت حاصل ہے ۔ عہدِ حاضرمیں اسلا م مخالف طا قتوںکی ریشہ دوانیوںکے سبب آج عالم اسلام جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے وہ ہرذی فہم کیلئے کسی لمحئہ فکریہ سے کم نہیں۔ ایسے میںایک قلم کار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے تلوار کا کام لے اور اسلام مخا لف سازشوں کا پردہ چاک کرے۔ آزر صاحب نے اس فریضہ کو بحسن و خوبی نبھایا ہے ۔ اس ذیل میںانہوںنے انگنت شعرکہے ہیں۔ کہیںتلمیح سے کام لیا ہے تو کہیںایمایئت سے اور کہیں کہیں برملا اظہاربھی ہے ۔ طوالت کے خوف سے صرف چند اشعار کا حوالہ پیش ہے۔
دہر میںزندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہے۔امتحاںمیںاب بھی ابراہیم کی اولادہے
کربلاہو کہ‘ فلسطین ‘ کہ ہو بوسینیا۔ درد صدیوںسے مرا نام و نسب جانتا ہے
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوںکے سوا۔محوِ حیرت ہیںکہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
صحرا سے العطش کی صدا آرہی ہے پھر۔تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر
            آزر صاحب کی شاعری سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مروجہ یکسانیٔ فکر کی عام روش سے ہٹ کرانہوںنے جو اشعار کہے ہیںان میں مواد اور ہیئت کے درمیان فاصلہ کو جس کامیابی سے طے کیا ہے اس سے ان کی فنی اور فکری بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لسانی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی وہ راہِ اعتدال سے متجاوز نہیں ہوئے ہیں۔ مشکل تراکیب اور دوراز کار استعارات سے عمداََ گریزسے ابلاغ وترسیل کامسئلہ بھی پیدا نہیںہوتا ۔ یہی وہ محاسن ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری قاری کے انجذاب توجہ کا باعث بنتی ہے۔ان کے ہاںکچھ اشعار ایسے بھی مل جاتے ہیںجنہیںان کا شناس نامہ کہا جا سکتا ہے۔ مثلاََ ان کا یہ اولین شعر دیکھیں۔
ہاتھ ملتی رہ گئیںسب خوب سیرت لڑکیاں۔خوب صورت لڑکیوںکے ہاتھ پیلے ہو گئے
               بیشتر اشعار میںان کی ایسی سوچ بھی کار فرما ہے جس سے ان کے فکری ارتفاع اور تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے۔ خصوصاََ لفظوں کو انہوںنے جو کثیرالجہتی عطاکی ہے اس کے سبب ان کی شاعرانہ آواز اپنے ہم عصروںمیں دور سے پہچانی جا 
سکتی ہے۔ اس قبیل 
کے چند اشعار دیکھیں۔
ہم نے گزار دی جسے چھاؤںمیںبیٹھ کر۔وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑ نے کی زندگی
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا۔رکے تو پائوں سے آگے نکل گئیں صدیاں
بدلے میں اس کی موت مرا میں تمام عمر ۔ و ہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی  
سب کی آنکھیں رکھی تھیں گروی میرے دشمن کے پاس 
کون  میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا
           اس میں شک نہیں کہ آزر صاحب حرف کے مزاج داں ہیں اور ان کا کلام صلابتِ فکری اور شعری بصیرت کا نمونہ۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید حسیت ،سماجی شعور اور اسلامی افکار سے وابستگی کے سبب ان غزلوں میں جو دلکش فضا بندی ہوئی ہے وہ ان کی شعری جہات کے وسیع ترامکانات کا جواز فراہم کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے گلوبل گائو ں کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر فریاد آزؔر نے وقت کے محضر نامہ پر اپنے فکرو فن کے جو دستخط ثبت کئے ہیں ان کی شناخت  لکیر وں کے ازدحام میں بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts