دستکیں دیتی ہوئی ماضی کی پروائی بھی ہے
یاد کی خوشبو سے مہکی دل کی انگنائی بھی ہے
غیر تو پھر غیر ہیں میں ان کو کیوں الزام دوں
دشمنی پر جب کمر بستہ مرا بھائی بھی ہے
دشت و صحرا‘ کوہ و دریا پار کرکے آگیا
فاصلوں کے درمیاں اک آخری کھائی بھی ہے
مدتوں سے مجھ پہ طاری ہے عجب سی کیفیت
جس قدر عزت ہے اس میں اتنی رسوائی بھی ہے
دور رہتا ہوں سیاست سے ہمیشہ میں سعیدؔ
’’انجمن میں ہوں مگر احساسِ تنہائی بھی ہے‘‘
سعیدرحمانی
No comments:
Post a Comment