ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Wednesday, March 25, 2020

Dafeena Pahad Ka Miraaj Ahmed Miraaj

 کتاب کا نام۔ دفینہ پہاڑ کا    (شعری مجموعہ)
شاعر۔معراج احمد معراجؔ     مبصر سعید رحمانی

عصر حاضر کے شعری منظر نامہ میں معراج احمد معراجؔ کو منفرد شناخت حاصل ہے جو نہ صرف غزل کے مزاج داں ہیں بلکہ حرف و صوت کو یکجا کر کے خوبصورت شعری پیکر عطا کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ان کی غزلوں کو نئی شاعری کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔نئے لہجے میں زندگی کی تشریحات و تعبیرات کو پیش کرتے ہوئے وہ ارد گرد وقوع پذیر حالات کو اپنی باطنی اور وجدانی قوت سے بڑی بے باکی کے ساتھ شعری سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔
زیرِ نظر مجموعہ ان کی پانچویں پیش کش ہے ۔اس میں وہ سبھی غزلیں شامل ہیں جو ملک کے مقتدر رسائل اور اخبار کی زینت بن چکی ہیں ۔شعری سفر ۱۹۸۵ء؁ سے جاری ہے۔ ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے ان کی شاعری شعوری بالیدگی اور فکری صلابت کی آئینہ دار بن چکی ہے۔نہایت سادہ و سلیس زبان میں وہ بڑی گہری باتیں کہہ جاتے ہیں جس کی بنا پر اشعار میں سادگی کے ساتھ پرکاری بھی ہوتی ہے اور گہرائی و گیرائی بھی۔
۱۱۲؍ صفحات پر مشتمل اس مجموعے کی ابتدا حسب روایت حمد و نعت سے ہوئی ہے اور اس کے بعد غزلیں ہی غزلیں ہیں۔ان غزلوں کے مطالعہ سے شاعر کی شخصیت ،فکری طہارت اور تعمیر پسند جذبات کا پتہ چلتا ہے۔ ان غزلوں کی سب سے بڑی خصوصیت ایجاز و اختصار ہے۔ چند لفظوں میں کائنات کو سمو لینے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔ انھیں خود بھی اپنی اس خصوصیت کا احساس ہے۔اس لیے کہتے ہیں:
میری غزل کی وسعتِ معنی نہ پوچھئے۔کوزے میں رکھ دیا ہے سمندر سمیٹ کر
اس بات کی تصدیق درج ذیل اشعار سے کی جاسکتی ہے جن میں استعارات و علائم کے وسیلے سے انھوں نے اپنے مشاہدات کا اظہار کیا ہے۔
دریا کو کبھی اتنا تکبر نہیں ہوتا۔دریا سے اگر شہر کے نالے نہیں ملتے
جنوں خیز خنجر بکف ہیں اندھیرے۔کہیں کاٹ ڈالیں نہ سر روشنی کا
اِدھر فوجِ ظلمت اُدھر ایک جگنو ۔بہت ہی بڑا ہے جگر روشنی کا
پہلے شعر میں دریا اور نالے کے حوالے سے یہ بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر چھوٹے لوگ خاکساری سے بڑے لوگوں سے نہ ملتے تو بڑوں میں اتنا تکبر نہیں ہوتا۔دوسرے شعر میں ظلمت پسند طاقتوں کے غلبے پر خدشے کا اظہار ہے جب کہ تیسرے شعر میں روشنی کی بڑائی کا اعتراف ہے۔کہیں کہیں تشبیہات کا برملا استعمال شعر کے حسن میں اضافے کا باعث بنتا ہے:
تلخ باتوں سے تعلق میں دراڑ آئے گی۔دودھ میں املی اگر ڈالو گے پھٹ جائے گا
غزل کے واسطے معراجؔ فکر میں ڈوبو۔بغیر جھیل میں اُترے کنول نہ پاؤگے
معاشرے میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ان کی نظر رہتی ہے اور وہ بڑی خوبصورتی سے انھیں اپنے اشعار میں تجسیم کرتے ہیں۔یہ شعر ملاحظہ ہوں:
نہ روشنی کے لئے اتنی تیز لو کر لو۔ کہ لالٹین کا شیشہ سیاہ ہو جائے
دوستوں کو پرکھنا ہے اگر آپ کو۔اُن سے کہیے کہ مالی مدد چاہئے
یوں تو ان کا شعری کینوس بہت وسیع ہے اور سب کا احاطہ اس مختصر تبصرے میں ممکن نہیں۔ صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ شاعر بڑا حساس ہوتا ہے اور وہ اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات و سانحات سے گہرا اثر لے کر موضوعِ سخن بناتا 
ہے۔آج ملک کی فضا جس قدر مسموم ہو رہی ہے اور جس طرح ایک مخصوص فرقہ کو ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کی تصویر کشی ملاحظہ فرمائیں:
تیرے چہرے پہ داڑھی ہے۔کیا تو دہشت گرد ہے بابا
ہم کچھ ایسی فضا میں جیتے ہیں۔ہر نفس جو ہراس دیتی ہے
نسلی تعصب اور معاشرے میں در آئی نا ہمواریوں کاذکر وہ بڑی بے باکی سے کرتے ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں:
میں غلط کو غلط نہ کیوں لکھوں۔عیب ہر گز ہنر نہیں ہوتا
ہمیں جو لکھنا ہے بے خوف لکھتے ہیں معراجؔ
کسی کی دھمکی ہمارے قلم نہیں سنتے
مجموعی طور پر یہ مجموعہ شاعر کی عصری حسیت اور دل نشیں پیرایہ ٔ اظہار کا مرقع ہے جس میں آج کے عہد کے سلگتے ہوئے مسائل اور آج کے انسان کو در پیش سانحات کو بڑے فن کارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے اس کو خوبصورت خد و خال عطا کئے ہیں۔قیمت ہے ۷۰؍ روپے اور شاعر کا پتہ ہے۔ کلٹی ۔آسنسول (مغربی بنگال)موبائل:0975472294

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts