ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Wednesday, September 12, 2018

نامِ کتاب پرفضا(شعری مجموعہ) شاعر۔خداداد مونس مبصر۔سعید رحمانی


  نامِ کتاب پرفضا(شعری مجموعہ)
شاعر۔خداداد مونس مبصر۔سعید رحمانی



خدادا دخاں مونس ؔصاحب ایک ہمہ جہت قلم کار ہیں۔ان کا تعلق گلابی شہر جے پور سے ہے جہاں کی ادبی فضا میں یوں تو ادب کے متعدد ستارے اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں مگر ان سب میں مونس صاحب کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ والد ماجد کے زیر سایہ ان کی شاعری پروان چڑھی اور ارتقائی منزلیں طے کرتی رہی۔ روایت کی پاسداری کے ساتھ ان کی غزلیہ شاعری عصری میلانات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے جس میں انفس و آفاق کے سبھی پہلو روشن نظر آتے ہیں۔
ان کی شاعری پر مزید کچھ کہنے سے پہلے یہ بتا دوں کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ کر گراں قدر خدمت انجام دیں۔ سکریٹری راجستھان اردو اکاڈمی ‘ڈائر یکٹر مولانا آزاد عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘رجسٹرار ایم ڈی ایس یونیور سٹی اجمیر کی حیثیت سے آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ خواجہ معین الدین چشتیؒسے آپ کی خاندانی وابستگی رہی ہے اور ناظم درگاہ خواجہ صاحب کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ’’طوطیِ خواجہ‘‘کے خطاب کے علاوہ بسمل سعیدی ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
آپ کی شخصیت ادب کے مختلف خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ شعروشاعری کے علاوہ نقد و تحقیق اور ترجمہ نگاری کے باب میں مختلف کتابیں منظر عام پر آکر پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔اردو کے ساتھ فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔چنانچہ ان زبانوں کی کتابوں کو بھی ایک دوسرے میں منتقل کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۹۲ء سے جو کتابیں منظر عام پر آئیں ان میں سے کچھ نام ہیں:۔بخشش کی راہوںمیں(سلام و مناقب)‘بکھرے ہوئے اوراق(مضامین)‘کلامِ جوہر (مرتبہ)‘طاقِ نسیاں(بھولی بسری اصناف سخن پر منظومات)‘دیوانِ اخگر(تحقیقی) بکھرے ہوئے اوراق‘ وغیرہ
زیر نظر مجموعہ ’’پر فضا‘‘مختلف غزلوں پر مشتمل ہے۔ ایسی غزلوں کا انتخاب ہے جو ہر دور کی ترجمانی کرتی ہیں۔ان کے تعلق سے وہ خود کہتے ہیں ’’ان غزلوں میں روایت کی پاسداری اور میرے اپنے تجربات و مشاہدات بھی ہیں اور ارد گرد جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات بھی‘‘۔خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے لفظوں کی شعبدہ بازی کی بجائے حرمتِ زبان کا خاص خیال رکھا ہے اور اپنی شاعری کو اصلاحی و تعمیری جہت دینے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔درج ذیل اشعار ان کے رحجانِ طبع کی نمائندگی کرتے ہیں۔
پیلی دھوپ میں سرخ زمیں پر نیلے جسم ۔میرے گلابی شہر کے خونی منظر ہیں
الجھنوں کا جنگل ہے‘ بے وقت کے بگولے ہیں
جنگ ہے اصولوں کی ہوش کی دوا کیجئے
کس درجہ چہرے چہرے پہ خوف و ہراس ہے
جو ہے تمھارے شہر میں وہ بد حواس ہے
وہ ظلم بھی کرے ہے وہی عدل بھی کرے
مظلومیت کے پاس فقط التماس ہے
کھڑی فصلیں محبت کی جلا کر۔نہ جانے کون نفرت بو گیا ہے
یہ اشعار عصری منظر نامہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اس کے علاوہ اشاروں ‘کنایوں اور استعارات و علائم اور تلمیحات کا استعمال بھی جا بجا بڑی خوبصورتی سے کیا ہے جس کی بنا پر ان اشعار میں معنوی گہرائی اور تہہ داری پائی جاتی ہے مثلاً
چمگادڑوں کے شہر کا منظر بھی ہے عجیب
اندھے کنوئیں میں خوش ہیں کہ اونچی اُڑان ہے
مظلوم کی عظمت کے ظالم بھی تو قائل ہیں
ہے کوئی مثال ایسی نیزے پہ بھی سر بولے
زمینِ کفر سے توحید کا چلن نکلا۔کہ بت تراش کے گھر میں ہی بت شکن نکلا
اس نوعیت کے اشعار مجموعے میں جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں جن میں تشبیہہ و استعارہ کی تازہ کاریاں بھی ہیں اور جدت طرازی بھی۔اس کے علاوہ ان غزلوں میں اسلوب کی شگفتگی‘لفظوں کے حسن کا رانہ دروبست اور ایک منفرد استعاراتی فضا ہموار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مجموعی طور پر ’’پر فضا‘‘ کی غزلیں روایت کی پاسداری کے ساتھ عصری فضا اور آج کے مسائل کا خوبصورت اظہاریہ ہیں۔ مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے خارجی اثرات کو داخلی کیفیات کا رنگ عطا کر کے اپنی شاعری کو انفرادی حیثیت دی ہے۔ انھیں کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
عجب مجموعہ ٔ اضداد تھا مونسؔ کا کیا کہنا۔ہمیشہ پھول برساتا رہا شعلہ نواؤں میں
اس مجموعے کی قیمت ۲؍ سو روپے اور شاعر کاپتہ:خداداد مونس ۔ معرفت خورشید احمد خطیب۔دفتر درگاہ کمیٹی ۔درگاہ خواجہ صاحب۔اجمیر۔305001 (راجستھان)


No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts