وہ میرے دل کو یقیں کی اساس دیتا ہے
خموشیوں کو صدا کا لباس دیتا ہے
سماعتوں کے دریچے مہکنے لگتے ہیں
صدائیں کوئی مرے دل کے پاس دیتا ہے
اتر کے آتا ہے آنکھوں میں درد کا ساون
لبوں کو جب بھی وہ صحرا کی پیاس دیتا ہے
یقیں کے گھر کو وہ تاراج کر کے چھوڑے گا
وفا کے ہاتھ میں سنگِ قیاس دیتا ہے
جو بانٹتا تھا خوشی آج کیوں وہی موسم
ہماری آنکھوں کو منظر اداس دیتا ہے
مرے سخن کی لطافت کا ذائقہ بھی سعیدؔ
غزل کے لہجے کو اپنی مٹھاس دیتا ہے
سعید رحما نی
No comments:
Post a Comment