غزل
سعید رحمانی
جو بٹتی ہے کبھی خیرات ہم خانہ خرابوں میں
امیرِ شہر لکھتا ہے اُسے اپنے حسابوں میں
نظر کے سامنے پھیلا ہوا ہے دھوپ کا صحرا
ہماری پیاس کے آہو بھٹکتے ہیں سرابوں میں
معطر ہے نواحِ جاں ابھی تک جن کی خوشبو سے
وہ لمحے اب کہاں جب پھول رکھتے تھے کتابوں میں
نکل کر درس گاہوں سے کیا بچوں نے ہنگامہ
عداوت کا سبق پڑھتے رہے تھے جو نصابوں میں
فقیہہ شہر کی دہلیز پہ کی ہے جبیں سائی
شمار ہونے لگے گا آپ کا عزت مآبوں میں
بصیرت کی نظر مفہوم کے موتی اُٹھا لائی
رکھا تھا لفظ کو میںنے علامت کے حجابوں میں
سعیدؔ ان کے جمال و حسن میں شک تو نہیں لیکن
کوئی خوشبو نہیں ہوتی نمائش کے گلابوں میں
No comments:
Post a Comment