ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Friday, September 28, 2018

نامِ کتاب۔عمر گزشتہ کی کتاب (خود نوشت حیات)

نامِ کتاب۔عمر گزشتہ کی کتاب       (خود نوشت حیات)
مصنف۔ ہارون بی اے       مبصرسعید رحمانی


صحافت کے میدان میں ہارون بی اے ایک بڑا نام ہے۔ان کی صحافتی زندگی کا آغاز  ہفت روزہ’’بیباک‘‘سے ہوا جس کا اولین شمارہ ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا تھا۔ان کی ادارت میں یہ ہفت روزہ مسلسل ۴۰؍ برسوں تک پابندی سے شائع ہوتا رہا اور آج بھی شائع ہوتا ہے مگر اب اس کے مدیر محمد اسمٰعیل ہیں کیونکہ ۲۰۰۶ء سے ماہنامہ بیباک کی ادارت ہارون صاحب نے سنبھال لی ہے۔ یہ دونوں رسالے ہارون صاحب کی حق گوئی اور بیباکی کے مظہر ہیں۔
اس وقت وہ عمر کے ۸۶؍ویں زینے پر کھڑے ہیں جہاں شام کے سائے نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے ۔ایسے میں ہر آدمی تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے لیکن اللہ کا کرم ہے کہ ہارون صاحب ابھی بھی چاق و چوبند ہیں اور ان کے اشہب قلم کی روانی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
ان کی زندگی جن نشیب و فراز سے گزری اورجو مشاہدات و تجربات انھیں حاصل ہوئے انھوں نے ضروری سمجھا کہ ان سبھوں کو سمیٹ کر کتابی شکل دے دی جائے ۔نتیجے میں یہ خود نوشت سوانح عمری بعنوان’’عمر گزشتہ کی کتاب‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ بقول عبد الاحدساز :’’ان کی یہ خود نوشت قارئین کے لئے بڑی ہی قربت اور رغبت کا باعث ہوگی کہ یہ ان کی گزاری ہوئی زندگی کی نہیں بلکہ ایک طویل بھرے پُرے دورکے ذاتی تجربوں اور مشاہدوں کے ساتھ جی ہوئی زندگی کی روداد ہے۔‘‘
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتادوں کے سوانح نگاری کا آغاز یورپ میں ہوا اور سترہویںصدی کے نصف آخرمیں اسے مستقل صنف کی حیثیت دے دی گئی۔اردو میں یہ صنف انگریزی زبان سے آئی ہے۔ اب تک اردو میں بہت ساری سوانح عمریاں لکھی جا چکی ہیں۔ ان میں مولانا م محمد حسین آزاد کی’’آبِ حیات‘‘ سر سید کی آثار الضادید وغیرہ کافی مشہور ہیں۔مولانا حالی کا شمار جدید سوانح نگاروں میں ہوتا ہے۔حیات سعدی لکھ کر انھوں سے اس فن کی بنیاد رکھی۔ خود نوشت سوانح عمری اسی  کی ایک شاخ ہے جسے اس لئے مشکل سمجھا جاتا ہے کہ اس میں اپنی خوبیوں کے ساتھ خامیوں کو بھی پیش کرنا ضروری ہے۔ وہی خود نوشت سوانح نگار کا میاب تصور کیا جاتا ہے جس نے بیباکی سے اپنی خامیاں بھی اُجاگر کی ہوں ۔اس کے علاوہ زبان و بیان کی سادگی اور شگفتگی بھی ضروری ہے۔زبان اگر ثقیل اور گنجلک ہوتو قاری دوسروں کی زندگی میں جھانکنے کے لئے مغز ماری کیوں کرے گا۔
اس تناظر میں ہارون صاحب کی خودنوشت پر نظر ڈالیں تو یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ انھوں نے بڑی سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کیا ہے۔ طرز ادا اس قدر دلکش ہے کہ ۲۸۰؍ صفحات کومحیط اس ضخیم کتاب کو ایک ہی نشست میں ختم کرنے کے لئے قاری پڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور کہیں بھی اکتاہٹ محسوس نہیںہوتی ۔اس طرح کہا جائے تو یہ سوانح عمری جہاںہارون صاحب کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے وہیں ایک ادبی شہ پارے کی حیثیت بھی اسے حاصل ہے۔
یہ پوری کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے جن میں پہلے تین ابواب میں ان کی ابتدائی زندگی اور تعلیمی مراحل کے ساتھ ایسے دلچسپ واقعات کا تذکرہ ہے جو ان کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوئے۔چوتھا باب ان کی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔پانچواں باب سوویت روس کے سفر نامے کی روداد پیش کرتا ہے اور ناچیز کی رائے میں یہ سب سے اہم باب ہے۔انھوں نے روس کا سفر اس وقت کیا تھا جب وہ بکھرا نہیں تھا۔ روس میں اپنے مشاہدات کی اس طرح تصویر کشی کی ہے کہ قاری بھی ان کے ساتھ سیر کرتا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے مطالعہ سے وہاں کے لوگوں کے اخلاق واطوار کے ساتھ ان کے رہن سہن کی جانکاری بھی ملتی۔یہ غلط فہمی بھی دور ہوجاتی ہے کہ سویت روس میں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی جبکہ ہارون صاحب بتا تے ہیں کہ وہاں آباد مسلمان نہ صرف اسلامی طرز کا لباس پہنتے ہیں بلکہ اپنے مذہبی فرائض بھی آزادی سے ادا کرتے ہیں۔ آخری ابواب ان کی ادبی‘صحافتی‘ ثقافتی سرگرمیوں سے روشناس کراتے ہیں۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہارون صاحب نے اپنے عہد کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے جو آج کی نئی نسل کی فکر کو محرک کرنے میں یقیناً معاون ہوگا۔ امید ہے کہ اہل ادب خوش دلی سے اس کی پذیرائی کریں گے۔ اس کی قیمت۳؍سو روپے ہے اور ناشر ہیں :اسکس لائبریری ۔کیفی اعظمی روڈ ،مقابل A.T.Tہائی اسکول ۔مالیگاؤں۔٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts