ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Friday, September 28, 2018

نام کتاب۔دھوپ پھر نکل آئی(شعری مجموعہ)

    نام کتاب۔دھوپ پھر نکل آئی(شعری مجموعہ)
    شاعر۔حسیب سوز           مبصر ۔سعید رحمانی
حسیب سوز ایک ہمہ جہت قلم کار ہیں۔شعرواد ب نقد و تحقیق اور صحافت میں ان کی گراں قدر خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ شاعری میں غزل ان کی پسندیدہ صنف سخن ہے۔چونکہ وہ رہ سنبھل کر شعر کہتے ہیں اس لئے اب تک ان کے صرف دو مجموعے ہی شائع ہو سکے ہیں۔ اولین مجموعہ’’ برسوں بعد ‘‘۲۰۰۹ء میں شائع ہوا تھا۔ اور پھر برسوں بعد یعنی کوئی آٹھ سال بعد یہ دوسرا مجموعہ جنوری ۲۰۱۷ء میں منظر عام پر آیا ہے جس میں بمشکل ۷۰؍۸۰؍ غزلیں ہیںاور آخر میں ۱۰؍۱۱؍ غزلیں صرف تین تین اشعار کی ہیں۔۸؍سالوں کے اندر غزلوں کا یہ مختصر سا اثاثہ ثابت کرتا ہے کہ دیگر ادبی امور انھیں باندھے رکھتے ہیں اور جب موقع ملتا ہے تو غزل لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے کم سہی مگر اب تک جتنی بھی غزلیں کہی ہیں ان کی انفرادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔بقول نظام صدیقی ’’ان کی غزلیہ کائنات میں بظاہر معصوم بچوں جیسی تازہ کار جمالیاتی برجستگی اور رشیوں جیسی معراجی اقداری ہوش مندی دستیاب ہوتی ہیں جو ایک شفق تاب تخلیقیت اور معنویت سے فروزاں ہے‘‘۔
حسیب سوز ؔ کی غزلوں کی سب سے بڑی خوبی ایجاز و اختصار ہے ۔وہ کم سے کم الفاظ میں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں گرے پڑے لفظوں کو بھی محترم بنا نے کا ہنر خوب آتا ہے ۔اس بات سے غرض نہیں کہ الفاظ خواہ ہندی کے ہوں یا انگریزی کے ۔اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اسی لئے ترا خالی مکان رہتا ہے۔تو عشق میں بھی بڑا ساودھان رہتا ہے
رات خوابوں میں ہر اک شے پہ ادھیکار مرا۔دن جو نکلا تو ہر اک چیز پرائی نکلی
جیتے جی ایک بھی چٹھی نہیں ملنے والی ۔جب تلک سانس ہے مکتی نہیں ملنے والی
خراب موڈ میں نکلے ہیں صاحبِ عالم ۔کسی کا تیر کسی پر نہ آج چل جائے 
اس کا ہمارا ساتھ تو بس اتفاق تھا ۔بگڑی ہوئی مشین تھی کچھ دیر چل گئی
ہندی اور انگریزی لفظیات کے برملا استعمال نے شعر کو جہاں معنوی جہات عطا کی ہے وہیں تغزل کو بھی آنچ نہیں آنے دیا ہے۔ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ایسے نغز گو شاعر ہیں جنھیں زبان و بیان پر مکمل عبور بھی ہے اور 
زبان و بیان میں نت نئے تجربے بھی کرتے رہتے ہیں اور اس طرح اردو لغت کی توسیع کا کام انجام دیتے ہیں۔
شاعر ہو یا ادیب وہ عام آدمی کے مقابلے میں بڑا حساس ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ارد گرد رونما ہونے والے سانحات و واقعات سے گہرا اثر لیتا ہے اور انھیں شعری پیرہن میں پیش کر دیتا ہے۔ حسیب سوز بھی ایک ایسے ہی حساس شاعر ہیں۔چنانچہ آج کے اس انہدام پذیر معاشرے کی سچی تصویر ان کے یہاں مل جاتی ہیں۔
آج ہم دیکھ رہے کہ نیکی و بدی میں تمیز باقی نہیں رہی ‘ہر طرف نفرت اور تعصب کا بول بالا ہے ‘محبت اب گھاٹے کا سودا ہو چکی ہے ۔غرض صالح قدروں کی پامالی اس عہد کی پہچان بن چکی ہے۔اس ضمن میں یہ شعر ملاحظہ ہو:
تمام شہر نے دستار باندھ دی اس کے۔حسیب سوزؔ جسے تم برا سمجھتے تھے
اب اس خبر سے بُری اور کیا خبر ہوگی۔خراب آدمی اچھی خبر میں آنے لگا
تم اپنا نام بتا کر ہی چھوٹ جاتے ہو۔ہمیں تو ذات بھی اپنی بتانی پڑتی ہے
اب اس گناہ کو فیشن سمجھتی ہے دنیا۔کسی کا ہاتھ کسی کی کمر میں آنے لگا
جہاں انھوں نے زندگی کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے وہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی نظر رکھی ہے اور جزئیات نگاری کی عمدہ مثال قائم کی ہے۔مثلاً
یہ موم بتی بہت دیر تک نہیں جلتی۔بہت سمے نہ لگانا پلٹ کے آنے میں 
خدا بھلا کرے ان ڈاک خانے والوں کا۔کئی مہینوں میں پہنچا وہاں جواب مرا 
مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ زیر نظر مجموعے کی شاعری اپنے اندر ایک انوکھا ذائقہ رکھتی ہے جس میں فکری اور لفظیاتی سطح پر ندرت اور شگفتگی اور تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے ۔اس طرح یہ مجموعہ انفرادیت کا حامل ہو گیا ہے۔ اس لئے امید واثق ہے کہ ادبی حلقہ خوش دلی سے اس کی پذیرائی کرے گا۔ سبز رنگ کے خوش نما دبیز کاغذ پر چھپے اس مجلد مجموعے کی قیمت ہے دوسوروپے ۔شاعر کا پتہ ایڈیٹر لمحے لمحے۔امام باڑہ امعلیٰ پور بدایوں۔243631(یوپی)

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts