ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Friday, September 28, 2018

نامِ کتاب۔آئینۂ یگانہ (شعری مجموعہ)

شاعر۔کاظم نائطی مبصر۔سعید رحمانی



کاظم نائطی چینئی کے ایک کہنہ مشق اور معتبرشاعر کی حیثیت سے اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں اور اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ اپنی شعری کاوشوں کو’’ آئینۂ یگانہ ‘‘کی صورت میں ہمارے سامنے لے کر آئے ہیں۔ یہ مجموعہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے حصے میں نعتیں ‘ نعتیہ سانیٹس اور غزلیں شامل ہیں ۔جب کہ دوسرے حصے ’’معنیٔ بیگانہ‘‘کے تحت ’’طریق‘‘کے عنوان سے مسدسِ کاظم شامل ہے۔ مجموعہ کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہے کہ کاظم نائطی صاحب کو بیشتر اصنافِ سخن پر دسترس حاصل ہے۔ بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں اور غزل ہی کے آئینے میں ان کی شاعرانہ شخصیت کا عکسِ جمیل نمایاں نظر آتا ہے۔ جدید لب ولہجہ میں ان کی غزلیات میں سلاست و فصاحت کے ساتھ ساتھ فکری علویت اور شان و شوکت بھی پائی جاتی ہے۔ سماجی شعور کے ساتھ ان میں خلاقانہ قوت ِ اظہار بھی ہے جس کی بنا پر یہ غزلیں انفرادیت کی حامل ہو گئی ہیں۔
ابتدا میں چند قطعات کے بعد ایک حمدیہ غزل ہے اور اس کے بعد نعوتِ پاک۔یہ نعتیں جہاں موصوف کے ُحبِّ رسول کی سرشارانہ کیفیت کی آئینہ دار ہیں وہیں ان میں سنجیدگی‘متانت‘ لطافت‘ سلاست‘ بلاغت ‘روانی اور دلی سوزوگداز کا احساس بھی ہوتا ہے۔مثلاً
لفظوں میں خوشبو کو سمونے کا وقت ہے ذکر حبیبِ پاک میں کھونے کا وقت ہے
ان کے سبھی نعتیہ اشعار شرعی حدود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان تمام اوصاف کے حامل ہیں جو معیاری نعت کوتشکیل دیتے ہیں ۔ انھوں نے روایتی مضامین کو بھی اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ ان میں حسنِ بیان‘اور دلکش طرزِ ادا کے سبب ایک نئے آہنگ کا احساس ہوتا ہے۔اس لئے بلا تکلف انھیں ایک کامیاب نعت گو کہا جا سکتا ہے۔
ان کی غزلوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان میں بھی وہی فکری بلند پروازی‘ پر شکوہ لہجہ‘ژرف بینی‘ فکری ارتفاع ‘حالات کی تلخی اور کرب ِذات کی کسک کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حالاتِ حاضرہ پر ان کی گہری نظر ہے۔ صالح قدروں کی پامالی‘ہوس ناکی‘انسان کی درندگی ‘تعصب و نفرت اور فسادات جیسے المیوں کو انھوں نے خوبصورت شعر ی پیرہن عطا کیا ہے۔اس ذیل میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔
تن کو اجلی پوشاکوں سے ڈھک تو گئے۔من پر ایسا رنگ جمانے میں دیر لگی
کہیں سکوں کا گوشہ ملے تو جا بیٹھوں۔تمام بھاگتے پھرتے ہیں مال وزر کی طرف
ہر شخص دوسرے کو نوچے پھرے ہے ہر سو۔وحشت کے سارے منظر شہروں میں دیکھتے ہیں
سرکٹے‘گھر جلے‘ہر طرف خوں ہی خوں۔شہر میں نفرتوں کا یہ خاکہ بنا
انھوں نے بعض جگہ خوبصورت استعارا ت و علائم سے بھی اپنے شعروں کو گہرائی و گیرائی عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔مثلاً
سناٹے اوڑ ھ لینا کاظمؔ کو آگیا ہے ۔چرچا ہے اس کی چُپ کا کہرام سے زیادہ
زر دپتے دھوپ کے جنگل سے کب کے اُڑ گئے
خشک میدانوں میں اب تک بھی بجھے بیٹھے ہیںلوگ
اور سب سے افسوسناک پہلو آج کے مسلمانوں کی بے حسی ہے جس کا شدید احساس کرتے ہوئے کاظم ؔصاحب کہتے ہیں:
گرمئی زیست جس نے بخشی تھی خود پڑا سو رہا ہے سپنوں میں
مختصر یہ کہ ان کی شاعری کرب ِ ذات سے ہوتے ہوئے کربِ کائنات   کا استعارہ بن گئی ہے جس میں انفس و آفاق کے سبھی گوشے منور نظر آتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ’’آئینۂ یگانہ‘‘ اپنی منفرد شاعری کے لیے مقبولِ خاص وعام ہوگا۔اس کی قیمت ہے ۵؍سو روپے اور ملنے کا پتہ:حافظ محمد اسحاق عابد۔33/67ایلیس روڈ۔چنئی۔600002

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts