ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Friday, September 28, 2018

غلام سرور ہاشمی کی فکری اڑان

سعید رحمانی
مدیرِ اعلیٰ ادبی محاذ۔دیوان بازار کٹک(اڑیسہ)



گوپال گنج بہار کی سرزمین سے ابھرنے والے جواں فکر شاعر غلام سرور ہاشمی کا شمار اگرچہ نوواردانِ بساطِ سخن میں کیا جاتا ہے کیونکہ شعری سفر انھوں نے یہی کوئی دس گیارہ سال قبل ہی شروع کیا ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس قلیل عرصے میں انھوں نے ایسی فکری اڑان بھری کہ جلد ہی اپنی مقبولیت کا سکہ جما لیا۔مقامی‘ صوبائی اور کل ہند سطح پر ہونے والے مشاعروں میں تو مقبول ہیں ہی ساتھ ہی ملک اور بیرونِ ملک سے شائع ہونے والے اخبارات ورسائل میں بھی ان کا کلام تواتر سے شائع ہونے لگا ہے جس کے سبب وہ ادبی حلقوں میں بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور ہر دو حلقے میں یکساں مقبول ہیں۔
صنف غزل ہی انھیں محبوب ہے۔ ان کی غزلوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ روایت کی پاسداری عزیز ہے اور ساتھ ہی آج کے بدلتے ہوئے حالات اور عصری تقاضوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کے خام مواد کو جب جذبے کی آگ میں تپا کر لفظوں کی تجسیم کرتے ہیںتو اس کی صورت گری ہماری توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیتی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان شاعر اپنے ابتدائی سفر میں حسن وعشق اور زلف و رخسار جیسے فرسودہ موضوعات کو ہی اپنی غزلوں کا محور بناتے ہیں۔ غلام سرور کے یہاں بھی ایسی مثالیں مل جاتی ہیں مگر بہت ہی کم۔ ان کی نظر عہد حاضر کے سلگتے مسائل پر زیادہ مرکوز رہتی ہے۔ چنانچہ بیشتر غزلیں آج کے انہدام پذیر معاشرے کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔
اسلوبیاتی سطح پر سادگی و سلاست کے ساتھ ان کے یہاں گہرائی و گیرائی بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہی عصر حاضر کے سلگتے مسائل کی تمازت بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان تلخیوں اور نا مرادیوں کے با وجود ان کی او لوالعزمی ان کے بلند عزائم کا پتہ دیتی ہے۔
آج ہم جس بحرانی دور سے گزر رہے ہیں ان میں خاص طور پر ملک کی زہر آلود ہوتی فضا تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس کی تصویر کشی کے کچھ نمونے ان کے اشعار میں ملاحظہ ہوں:


ہم کو نگاہِ بد سے بچانا تو اے خدا
حالت ہمارے ملک کی ہموار نہیں ہے
آپ نفرت کا اُگانے لگے جنگل ہر سو
بستیاں پیار کی ہم لوگ بسانے نکلے
شہر میں بہتے لہو کی ندّیوں کو دیکھ کر
دل کھنچا جاتا ہے اپنا آج صحرا کی طرف
تمہارے بن مجھے شام و سحر اب
کسی پہلو سکونِ دل نہیں ہے
جن کی نیت ہے غریبوں پر ستم ڈھانے کی
دوستو ان کے خیالات سے جی ڈرتا ہے
اگر آپس میں یوں لڑتے رہو گے اے وطن والو
غلامی کی رہے گی پاؤں میں زنجیر مدت تک
  یہ اور اسی نوعیت کے اشعار جابجا مل جاتے ہیں جن میں انھوں نے متعصب ذہنوں کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ اس کا انجام بھی بتا دیا ہے۔ساتھ ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی دعوت بھی دیتے ہیں کہ اگر ہم مل جل کر رہیں اور تعمیری کاموں پر توجہ دیں تو ہمارا ملک حقیقی معنوں میں ایک شاداب گلشن میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں:
گلے شکوے کو اب دل سے بھلانے کی ضرورت ہے
دلوں میں ایکتا پھر سے جگانے کی ضرورت ہے
رہے ہندو‘ مسلماں‘سکھ‘عیسائی میں نہ کچھ دوری
محبت کا حسیں گلشن کھلانے کی ضرورت ہے
کسی کے دل میں نفرت اور حسدباقی نہ رہ جائے
سبھوں کو پیار سے باہم ملانے کی ضرورت ہے
صالح قدروں کی پامالی آج کا سب سے بڑا المیہ ہے۔رشتوں کی حرمت باقی نہیں رہی‘ دوستی کی آڑ میں دشمنی کا چلن ‘عدلیہ کی نا انصافی عام ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
راہ میں پھول بچھاتا رہا جن کی ہر دم۔میرے رستے میں وہی کانٹے بچھانے نکلے
قاتل نہیں ہے کوئی گناہ گار نہیں ہے
اس کو سزا ملی جو خطاکار نہیں ہے
یوں تو ملتے ہیں زمانے میں بہت دوست مگر
کم ہی ملتے ہیں محبت کو نبھانے والے
آج کی نئی غزل میں دعائیہ ا ور نعتیہ اشعار کہنے کی روایت بھی چل پڑی ہے۔اگر چہ روایتی شاعری میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں مگر دور حاضر میں اس روایت کا احیاء ایک نیک شگون ہے۔ اس طرح کے حمدیہ ا و ردعائیہ اشعار غزل کے فارم میں ایک نئے ذائقے سے روشناس کراتے ہیںکیونکہ ان میں غزل کی تما م تر خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ غلام سرور کے یہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں۔ ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کفر کی تاریکیاں بڑھنے لگیں دنیا میں جب۔نور حق سے آپ نے ہر سو چراغاں کر دیا
یہ مرے آقا کی چشمِ فیض کا ہے معجزہ۔جس بیاباں پر نظر ڈالی گلستاں کر دیا
ان اندھیروں میں نظر آتی ہیں یہ کرنیں کیسی
کس کے جلوؤں کی جھلک ہے ‘یہ اُجالا کیا ہے
یہ بھی ہے تسلیم سرورؔ دے کے پیغام وفا۔آدمی وحشی تھا پہلے اس کو انساں کر دیا
آج کل اردو غزل میں ایسے اشعار کہنے کی روایت چل پڑی ہے جن میں ماں کی عظمت کا بر ملا اظہار ہوتا ہے ۔ماں پر شعر کہنے کی راویت کا آغاز منور رانا سے ہوتا ہے۔ اس کے قبل بھی اگرچہ اس کی مثال پائی جاتی ہے مگر منور رانا نے ماں پر جس پایہ کے اشعار کہے ہیں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ پھر بھی آج کے شعرا اپنے اپنے طور پر ماں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔غلام سرور کے یہاں بھی ماں پر بہت سے شعر پائے جاتے ہیں۔انھوں نے ماں اور باپ دونوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یوں ماں کی دعا کرتی ہے سر پر مرے سایہ
نزدیک مرے کوئی بلا تک نہیں آتی 
ماں باپ کے جو دل کو دکھاتا ہے ہر گھڑی
دنیا میں اس سے بڑھ کے تو بد کار نہیں ہے
نارِ دوزخ میں اسے جلنا پڑے گا آخر
اپنے ماں باپ کو جو بھی ہے ستانے والا
ماں باپ کی عزت کا جنھیں پاس نہیں ہے۔وہ بے ادب ہیں ان کو حیا تک نہیں آتی
بعض جگہ انھوں نے اسلامی تلمیحات کو بھی بڑی خوبصورتی سے شعری جامہ عطا کیا ہے مثلاً 
حق کا پرچم لئے ہاتھوں میں وہی آلِ رسول
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جدید ٹکنو لوجی نے جو انقلاب پیدا کردیا ہے اس کے اچھے برے نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ خصوصاً انٹرنیٹ سے جہاں بہت ساری سہولیات میسر آئی ہیں وہیں سب سے بڑا نقصان وقت کا زیاں بھی ہے۔ ہماری نئی نسل پرنٹ میڈیا سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اپنا زیادہ تر وقت الکٹرونک میڈیا پر صرف کر رہی ہے۔بعض کو تو اس کا نشہ سا لگ گیا ہے ۔جب دیکھوا پنے کمپیوٹر سے لگے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اس طرح ان کا بہت سا وقت ضائع ہوتا ہے ۔اسی بات کے پیش نظر غلام سرور بار بار وقت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں:
ایک ایک پل کی کرو قدر ہمیشہ سرور۔پھر نہ آئیں گے یہ لمحے کبھی جانے والے
وقت کی قدر کرو دل سے ہمیشہ سرورؔ۔کیونکہ یہ وقت نہیں لوٹ کے آنے والا
وقت مٹھی سے نکل جائے گا بالو کی طرح۔ہوش میں آذرا یوں وقت گنوانے والے
غلام سرور شاعری کی ایک اہم خصوصیت ان کی صالح فکری اور تعمیر پسندی بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں طرح طرح کی برائیاں در آئی ہیں۔ انسان درندہ بن چکا ہے‘ دوستی کے پردے میں دشمنی عام ہے‘ علم کی روشنی پھیلنے کے باوجود جہالت کی تاریکیاں غالب نظر آتی ہیں۔ غرض کہ سیاسی‘ سماجی‘ اخلاقی سطح پر یہ نا ہمواریاں ایک ہوش مند انسان کے لئے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ انھیں باتوں کے پیش نظر وہ کہتے ہیں:
تاریکیاں جہاں کی مٹانے کی سوچ کر۔دل میں چراغ عزم جلانا پڑا مجھے
جس کو میں دوست سمجھتا رہا ہر دم لیکن ۔اک وہی مجھ پہ تھا الزام لگانے والا
راہ میں پھول بچھاتا رہا جن کی ہر دم۔میرے رستے میں وہی کانٹے بچھانے نکلے
عجیب بات ہے ہم جن سے پیار کرتے ہیں۔ہمارے دل پہ وہ خنجر چلائے جاتے ہیں
مختصراً کہا جائے تو غلام سرور نے اپنی غزلیہ شاعری کو ایک ایسا آئینہ خانہ بنا دیا ہے جس میں ہمارے معاشرے کی جھلکیاں بھی ہیں اور ہر شخص اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتا ہے۔ آج کے زہریلے ماحول نے ملکی حالات کو اس قدر دھماکہ خیز بنا دیا ہے کہ ہر گزرتا پل نئے نئے سانحات و حادثات اپنے ساتھ لے کر آنے لگا ہے۔اس پرہول کیفیت کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ دلوں میں محبت اور اخوت کے جذبات کو بیدار کیا جائے۔ اس ضمن میں ان کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:
سرورؔدکھانا تھا مجھے چہرہ ہر ایک کا۔آئینہ ہر غزل کو بنانا پڑا مجھے
 ہم رسمِ محبت کو نبھاتے ہی رہیں گے۔دشمن کو گلے سے بھی لگاتے ہی رہیں گے
غلام سرور کی فکری اڑان جاری ہے اور نت نئی بلندیاں سر کرتے جارہے ہیں۔امید ہے کہ آگے چل کر وہ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔لیکن انھیں ابھی شاعری میں اور بھی مشق کی ضرورت ہے۔بیشتر جگہ ان کی غزلوں پر نظر رکتی ہے۔اگر وہ اس جانب توجہ دیں تو یقین ہے کہ ادبی حلقہ خوشدلی سے ان کا استقبال

غلام سرور کی فکری اڑان جاری ہے اور نت نئی بلندیاں سر کرتے جارہے ہیں۔امید ہے کہ آگے چل کر وہ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔لیکن انھیں ابھی شاعری میں اور بھی مشق کی ضرورت ہے۔بیشتر جگہ ان کی غزلوں پر نظر رکتی ہے۔اگر وہ اس جانب توجہ دیں تو یقین ہے کہ ادبی حلقہ خوشدلی سے ان کا استقبال کرے گا۔  ٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts