قربتوں کی چاندنی میں مسکراتی ہے غزل
بے رخی کی دھوپ سے خود کو بچاتی ہے غزل
آنسوؤں کو جذب کرلیتی ہے ایک اک حرف میں
درد کے ساون میں لیکن بھیگ جاتی ہے غزل
اپنا چہرہ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں لوگ
آئینہ ان کو حقیقت کا دکھاتی ہے غزل
سو رہے ہیں ہم سلگتے منظروں کے درمیاں
دستکیں کانوں میں دے دے کر جگاتی ہے غزل
بزم کی جانب کھنچے آتے ہیں پروانے تمام
جب چراغِ فکر و فن اپنا جلاتی ہے غزل
اوڑھ کر روشن قبائیں حسن و معنی کا سعیدؔ
زندگی کے راز سے پردہ اٹھاتی ہے غزل
No comments:
Post a Comment