آئے گا پانی کا ریلا تیز تر برسات میں
بچ نہ پائے گا مرا مٹی کا گھر برسات میں
گاؤں کے گاؤں نظر آئیں گے جل تھل ہر طرف
کون لے گا ایک دوجے کی خبر برسات میں
جھیل میں اچھلا کریں گی خوبصورت مچھلیاں
آئے گی پھر ڈار کونجوں کی نظر برسات میں
اُجلی اُجلی وادیاں ہوں گی نظر کے سامنے
کھول دے گی اپنا گھونگھٹ جب سحر برسات میں
گاؤں کے پنگھٹ پہ ہوگا نازنینوں کا ہجوم
گوریوں کے ساتھ جھولے گا شجر برسات میں
رند نے ساغر اٹھایا اور شاعر نے قلم
جل پری نے بھی نکالے بال و پر برسات میں
شیش محلوں کے مکیں سو جائیں گے آرام سے
ہم ٹپکتی چھت تکیں گے رات بھر برسات میں
زور آندھی کا سہے گی جھونپڑی کب تک سعیدؔ
ذہن سے چپکا ہوا رہتاڈر برسات کا
No comments:
Post a Comment