ادب زندگی ہے

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024
Adabi Mahaz Jan to March 24, سہ ماہی ادبی محاذ جنوری تا مارچ 2024

Wednesday, September 12, 2018

نام کتاب:ندی کا جب کنارہ ڈوبتا ہے(شعری مجموعہ) شاعر:شان بھارتی مبصر:سعید رحمانی

 نام کتاب:ندی کا جب کنارہ ڈوبتا ہے(شعری مجموعہ)
شاعر:شان بھارتی                مبصر:سعید رحمانی


شان بھارتی صاحب کا تعلق کوئلے کی راجدھانی دھنباد سے ہے جس میں سے صرف کوئلہ ہی نہیں نکلتا بلکہ ادبی دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی پیدا ہو تے ہیں۔شان بھارتی بھی ایک ایسے ہیرے کی طرح ہیں جس کی چمک دمک سے ادبی دنیا منور ہو رہی ہے۔ان کی ہمہ جہت شخصیت کئی خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔شاعری کے علاوہ نقد وادب اور صحافت کے میدان میں بھی ان کی ظفر یابیوں کے پرچم لہرا رہے ہیں۔
شاعری کا چسکہ ایسا ہے کہ آدمی دن رات اسی میں کھویا رہتا ہے۔شان بھارتی شاعری تو کرتے ہی ہیں مگر ساتھ میں اپنی صحافتی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔ اس لئے قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ بہت گہرا ہے۔دن کو نواسوں اور پوتوں کو وقت دینا پڑتا ہے تو رات کو کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی ادبی مشغولیت کا پتہ درج ذیل اشعار سے ملتا ہے۔
یہ صحافت‘یہ قلم‘یہ آپ بیتی‘یہ غزل۔کوئی اُکساتا ہے مجھ کو اس لئے لکھتا ہوں میں
دن میں پوتے اور نواسے رات کو کاغذ قلم۔نیند  کواس عمر ہی میں خواب ہونا تھا ہوئی
میں نے قرطاس وقلم جب سے سنبھالا اے شانؔ۔مجھ کو نقصان میں بھی فائدہ ہونا تھا ہوا
ظاہر سی بات ہے کہ آج اردو رسالہ نکالنا خسارے کا سودا ہے مگر اس کے چلتے زبان وادب کو جو فروغ ملتا ہے وہ طمانیت کا باعث ہے۔شان بھارتی اسی لئے گھاٹے کو بھی فائدے کی بات سمجھتے ہیں۔
زیر نظر مجموعہ سے پہلے ان کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔اولین مشترکہ شعری مجموعہ تھا‘پھر بیسویں صلیب اور آخری صلیب کے نام سے دو مجموعے بالترتیب ۱۹۸۰ء اور  ۱۹۸۱ ء میں شائع ہوئے۔اب ۳۵؍ سال کے وقفہ سے یہ مجموعہ’’ندی کا جب کنارہ ڈوبتا ہے‘‘۱۹۱۵ ء میں منظر عام پر آیا ہے جس کے مطالعہ سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اب انھوں نے اپنے لہجے کی بازیافت کر لی ہے اور یہ لہجہ فیشن گزیدگی سے مبرّا صاف ستھرا‘سادہ اور سلیس ہے ‘مگر اس سلاست میں گہرائی و گیرائی بھی پائی جاتی ہے۔ان کا شعری کینوس کافی وسیع ہے جس میں متنوع موضوعات کو انھوں نے بڑی خوبصورتی سے شعری پیکر عطا کیا ہے۔ داخلیت کا سفر کرتے ہوئے انھوں نے غمِ 

ذات کو غمِ کائنات سے ہم آمیز کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے ۔ان غزلوں میں جہاں عصر حاضر کی قہر سامانیاں ہیں تووہیں انسانی رشتوں کی پامالی اور ان کی فکر اسلامی کے روشن نقوش بھی مرتب ہوئے ہیں۔مثالاً چند اشعار دیکھیں:
رکھا نہیں زمانے سے مرہم کی ہم نے آس۔اپنے لہو سے اپنے سبھی زخم دھو لیے
سچ بات منہ پہ کہہ دیا کرتا ہوں بر ملا۔مجھ سے زیادہ کوئی برا ہے تو بولیے
ہوا تن ڈھانکنا مشکل بھی لیکن۔کسی سے مانگ کر پہنا نہیں ہے
ہماری عظمتیں سوئی ہوئی ہیں خاک کے نیچے۔ہمیں سبق اب اسی خفتگی سے لینا ہے
وہ جن کے دم سے اجالوں کا تھابھرم اے شانؔ۔غضب ہوا کہ وہی تیرگی میں ڈوب گئے
یہ اشعار ان کی خود داری‘حق گوئی‘وضعداری اور فکرِ اسلامی کے شاہد ہیں۔ مختصر اتنا کہنا چاہوں گا کے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے تجربات و مشاہدات کو اس طرح شعری زبان عطا کی ہے کہ وہ نہ صرف فکر انگیز ہے بلکہ بلا کی تاثیر بھی رکھتی ہے ۔اس مجموعے کی قیمت ۹۱ ؍ روپے اور شاعر کا پتہ22/12سجوا۔دھنباد828121(جھاڑ کھنڈ)

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts